حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین استاد عابدیان،جانشین محترم آموزش عالی فقہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ہر شی کا ایک چہرہ ہوتا ہے اور دین کا چہرہ نماز ہے یعنی ہم ہرچیز کوجو پہچانتے ہیں اسکے چہرے سے پہچانتے ہیں چہرہ ہر چہز کو پہچاننے کا ذریعہ ہے اگر کسی کا چہرہ خراب ہو جائے تو وہ پہچاننے کے قابل نہیں ہوگا گویا اسکا وجود ہی نا قابل شناخت ہو جائے گا گویا اسکا وجود ہی نہیں ہے، دین بھی اسی طرح ہے کہ اگر نماز نہ ہو تو گویا ہمارے پاس دین ہی نہیں ہے ہمارے دین کا چہرہ نماز ہے، ہمارے دین دار ہونے کا وسیلہ نماز ہے پس ہمیں چاہئے کہ نماز کو زندہ کریں، قرآن فرماتا ہے: اقیمو الصلاۃ نماز قائم کرو اور نماز کو قائم کرنا یہ نماز پرھنے سے جدا ہے نماز پڑھنا یعنی نماز کو محقق کرنا ہے نماز کا قیام نہیں۔
یہ جو قرآن فرماتا ہے: تنھا عن الفحشاء والمنکر نماز انسان کو فحشا و منکر سے بچاتا ہے یہ وہی قیام نماز ہے جو انسان کو فحشا و منکر سے محفوظ رکھتا ہے اب اگر ہم نماز پڑھتے ہیں مگر فحشا و منکر سے اپنے آپکو محفوظ نہیں رکھتے ہیں تو یہ نماز نماز نہیں ہے اگر نماز حقیقت میں نماز ہوگی تو ہمیں فحشا و منکر سے بھی محفوظ رکھے گی، رمضان المبارک کہ جسکے لئے کہا گیا کہ اسکے دن تمام دنوں سے افضل اسکی راتیں تمام راتوں سے افضل اسکا ہر لمحہ تمام سالوں کے لمحات سے افضل ہے تو خود اس ماہ مبارک کے افضل ترین لمحہ وہ وقت نماز کا ہے جو اس ماہ مبارک میں پڑھی جاتی ہے۔
امام علی علیہ السلام نے جب محمد ابن ابی بکر مصر کا گورنر بناکر بھیجا تو انکے نام جو نامہ لکھا ہے نھج البلاغۃ کا 27 نمبر نامہ اس میں تحری کیا ہے کہ میں نے تمھیں اسلامی حکومت کے ایک اھم جگہ کو گورنر منایا ہے اور اس نامہ میں تاکید فرمایا ہے کہ صلوا صلاۃ فی وقتھا. نماز کو اسکے وقت پر پڑھو، یہ نہیں کہ جب بھی فرصت ہو نماز پڑھ لو نہیں بلکہ نماز کو اسکے وقت پر پڑھو لہذا بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ الصلاۃ عمود الدین، نماز دین کا ستون ہے لہذا اگر کسی گھر یا خیمہ کے وسط کا ستون ہٹا دیا جائے تو گھر ہی منھدم ہو جائے گا، وہ خیمہ زمین بوس ہو جائے گا۔
پیامبر اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نماز کے متعلق فرمایا: ان قبلت قبلت ما سواھا ان ردت ردت ما سواھا اگر نماز قبول ہو جائے تو بقیہ اعمال بھی قبول ہو جائیں گے لیکن اگر نماز رد ہو گئی تو بقیہ تمام اعمال رد ہو جائیں گے۔
انسان کے لئے روزہ رکھنا سخت ہے مگر روزہ کی قبولیت کا دارو مدار نماز کی قبولیت پر ہے، انسان کے لئے حج کو جانا سخت ہے مگر حج کی قبلیت کا دارو مدار نماز کی قبولیت پر ہے، انسان کے لئے خمس و زکات کا دینا سخت ہے انسان اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتا ہے مگر مال دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے) مگر اس خمس و زکات کی قبولیت کا دارو مدار نماز کی قبولیت پر ہے، اگر نامہ اعمال میں نماز کا وزن نہ ہوا تو یہ تمام چیزیں ہلکی اور بی معنی ہو جائیں گی ان تمام زحمتوں کے باوجود جو ہم نے اس کی انجام دہی میں کی ہیں ان سب کی قبولیت کا معیار نماز کا قبول ہونا ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ افضل اعمال کے متعلق، سئل عن افضل اعمال و حبھا الی اللہ، بھترین عمل اور محبوب ترین عمل خدا کے نزدیک کیا ہے۔
امام نے فرمایا: ما اعلم شیأ بعد المعرفت افضل من ھذہ الصلاۃ. معرفت خدا کے بعد نماز سے بھتر کوئی چیز نہیں ہے، اولین اور بھترین عبادت نماز ہے، پیغمبر سے روایت ہے کہ آپ کسی چیز کو نماز پر مقدم نہیں کرتے تھے اذا دخل وقتھا کانہ لا یعرف اھلا و لا ھمیما. جب بھی وقت نماز ہوتا تھا تو کسی کو نہیں پہچانتے تھے نہ اھل و عیال نہ خانوادہ نہ دوست و احباب، گویا یہ کہ نماز کو ہر چیز پر مقدم کرتے تھے۔
لذا اگر انسان نماز کی اھمیت اور اسکی حلاوت کو درک لے تو وہ اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ نماز کا وقت ہوتے ہی وہ دنیا کی تمام چیزوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔